Monday, 7 September 2015

دی فورٹی ایلیفینٹس چالیس ’’چورنیاں‘‘ Forty 'thief'

’دی فورٹی ایلیفینٹس‘‘ نامی جرائم پیشہ عورتوں کا گروہ، جس نے ڈیڑھ صدی تک لندن میں دہشت مچائے رکھی 
انگلستان کا دارالحکومت، لندن بہت سے لوگوں کے لیے خوابوں کا شہر ہے مگر ایک زمانے میں یہ جرائم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں شہر پر مختلف جرائم پیشہ گروہ قابض تھے۔
ہر گروہ نے شہر کا ایک مخصوص علاقہ سنبھال رکھا تھا۔ ان گروہوں کے نام زیرقبضہ علاقے کی مناسبت سے ہوتے تھے جیسے ’’ کیسل بوائز‘‘۔ اس زمانے میں قتل و غارت، نقب زنی، ڈکیتی، منشیات فروشی، اور چھینا جھپٹی جیسے جرائم عام تھے۔ یہ تمام جرائم ان ہی گروہوں کی سرپرستی میں ہوتے تھے۔ آئے دن ان گروہوں کے درمیان خون ریز لڑائیاں ہوتی تھیں جن میں عام لوگ بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ مشرقی اور جنوبی لندن جیسے پس ماندہ اور گنجان علاقوں میں جرائم پیشہ گروہ زیادہ مضبوط تھے۔
لندن کو جرائم کے گڑھ میں تبدیل کرنے اور آپس میں برسرپیکار رہنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے سب ہی اراکین مرد تھے، مگر تاریخ میں ایک ایسے گروہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو تمام کا تمام عورتوں پر مشتمل تھا۔
اس گروہ نے کوئی ڈیڑھ صدی تک لندن کے ویسٹ اینڈ نامی علاقے میں دہشت مچائے رکھی۔ جرائم پیشہ عورتوں کا یہ جتھا ’’دی فورٹی ایلیفینٹس‘‘ (چالیس ہاتھی) کے نام سے مشہور تھا۔ دی فورٹی ایلیفینٹس کی اراکین کے جرائم اور فرار کی داستانیں وقت کی دھول میں گُم ہوگئی ہیں، مگر 1865ء کے بعد سے تقریباً ہر روز ان عورتوں کے کارنامے اخبارات کی زینت بنتے تھے۔
اخبارات میں اس گروہ کی اراکین کو ’’ امیزون‘‘ (جنگجو عورتوں کی ایک نسل) کہا جاتا تھا۔ گروہ کی چالیس میں سے تیس ارکان بلند قامت اور مضبوط جثہ رکھتی تھیں۔ اخبارات و رسائل میں ان کے لیے ’’امیزون‘‘ کی اصطلاح غالباً اسی لیے استعمال کی جانے لگی تھی۔ بقیہ دس ارکان خوب صورتی میں اپنی مثال آپ ہوتی تھیں۔ دی فورٹی ایلیفینٹس کے بارے میں دست یاب معلومات کے مطابق گروہ میں نئی ارکان کی شمولیت کے دو معیار تھے؛ جسمانی مضبوطی، یا پھر ظاہری دل کشی۔
دی فورٹی ایلیفینٹس کے علاقے میں کوئی اور گروہ کارروائی کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے مردوں کے دو جرائم پیشہ گروہوں؛ ’’میل فورٹی ایلیفینٹس‘‘ اور ’’کیسل گینگ‘‘ کی حمایت حاصل تھی۔ دی فورٹی ایلیفینٹس کی اراکین دکانوں سے چیزیں چُرانے میں مہارت رکھتی تھیں اور یہی ان کی کمائی کا سب سے اہم ذریعہ تھا۔
گروہ سے وابستہ خواتین جدید تراش خراش کے منہگے لباس زیب تن کرتی تھیں، جن میں خفیہ جیبیں ہوتی تھیں۔ ظاہری حلیے سے دولت مند دکھائی دینے والی یہ عورتیں تین تین چار چار کی تعداد میں بڑے اعتماد کے ساتھ دکانوں میں خریداری کے بہانے جاتی تھیں، اور دکان دار کو باتوں میں لگاکر انتہائی صفائی سے قیمتی اشیاء اٹھا کر چھوٹی بڑی خفیہ جیبوں میں منتقل کرلیتی تھیں۔ ان کی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات یہ فرکوٹ اور ریشمی کپڑے کے پورے پورے تھان بھی لباس میں چھپا کر لے آتی تھیں۔
قیمتی لباس اور بناؤ سنگھار کی بہ دولت یہ طبقہ امراء میں ہونے والی محافل میں بھی جگہ پالیتی تھیں، اور موقع ملتے ہی ہاتھ کی صفائی دکھا جاتی تھیں۔ چھینا جھپٹی کے لیے یہ عورتیں ایک سادہ مگر دل چسپ طریقہ بھی اپناتی تھیں۔ یہ طریقہ وہ کسی بڑے اسٹور کو لوٹنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔ بڑے اسٹوروں میں، اس زمانے میں بھی داخلے اور اخراج کے کئی راستے ہوتے تھے۔
گروہ کی ساری عورتیں تمام راستوں سے اسٹور پر ہلّا بول دیتیں، اور جس کے ہاتھ جو شے لگتی وہ لے کر بھاگ کھڑی ہوتی۔ اسٹور کے محافظوں یا پولیس کے لیے سب کا پیچھا کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا وہ بہرصورت اپنے مقصد میں کام یاب ہوجاتی تھیں۔ جو عورتیں گرفتار ہوتیں انھیں اگلے ہی روز ضمانت پر رہا کروالیا جاتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’چالیس چورنیوں‘ نے دولت اکٹھی کرنے کے دوسرے طریقے بھی اپنالیے۔ گروہ کی دل کش اراکین مال داروں کو اپنے حُسن کے جال میں پھانس لیتیں، ان کے ساتھ وقت گزارتیں اور پھر انھیں بلیک میل کرکے لمبی رقم اینٹھ لیتیں۔ وہ جھوٹے اور غلط حوالوں کے ذریعے مال دار گھرانوں میں ملازمت حاصل کرتیں اور موقع ملتے ہی لوٹ مار کرکے فرار ہوجاتیں۔ لوٹ کا مال ہمیشہ گروہ کی سرغنہ کے حوالے کیا جاتا تھا جو ’’ کوئین‘‘ یعنی ملکہ کہلاتی تھی۔ مال مسروقہ کو تمام اراکین میں تقسیم کرنے کی ذمے داری بھی ملکہ کے ذمے تھی۔ لوٹ کے مال میں سے ایک حصہ گرفتار اراکین کی رہائی کے لیے پس انداز کردیا جاتا تھا۔
دی فورٹی ایلیفینٹس کی داغ بیل ممکنہ طور پر انیسویں صدی کے آغاز میں پڑی تھی جب انگلستان میں جرائم پیشہ گروہ بے حد مضبوط ہوچکے تھے۔ انیسویں صدی کے اواخر سے اس گروہ کی کارروائیاں اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگی تھیں، مگر ’’ دی فورٹی ایلیفینٹس‘‘ کو ’بامِ عروج‘ پر لے جانے کا سہرا ایلائس ڈائمنڈ کے سر ہے۔ اس ’پُھولن دیوی‘ کو انگلستانی پریس ڈائمنڈ ایلائس، ڈائمنڈ اینی، ڈائمنڈ کوئن اور کوئن آف دی فورٹی تھیوز بھی لکھتا تھا۔
ایلائس ڈائمنڈ کی پیدائش 1896ء میں ہوئی۔ غریب گھرانے میں جنم لینے والی ایلائس کا بچپن کسمپرسی میں گزرا۔ ہوش سنبھالا تو تکمیل خواہشات کی آرزو اسے دھیرے دھیرے جرائم کی راہوں پر لے گئی۔ ان ہی دنوں اسے دی فورٹی ایلیفینٹس کے بارے میں پتا چلا۔ بلند قامت اور مضبوط کاٹھی کی بدولت اسے جرائم پیشہ گروہ کا حصہ بننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ ایلائس کا قد اتنا تھا کہ اخبارات اسے لندن کی سب سے طویل قامت مجرم عورت کے طور پر بیان کرتے تھے، جو جسمانی طور پر بھی بہت مضبوط تھی۔ یوں واقعی وہ ایک مرد مار قسم کی عورت تھی۔ پُرتشدد فطرت اور ذہانت کے بل بوتے پر 1918ء میں ایلائس، چالیس چورنیوں کی سرغنہ بن گئی۔
دی فورٹی ایلیفینٹس کی سرغنہ کی حیثیت سے ایلائس نے اسکاٹ لینڈ یارڈ پر خصوصی نگاہ رکھی ہوئی تھی۔ ماضی میں گروہ کی کارروائیاں چوری اور چھینا جھپٹی تک محدود رہی تھیں، مگر ایلائس کی جارحانہ فطرت نے غنڈا گردی میں بھی فورٹی ایلیفینٹس کا نام بلند کردیا تھا۔ فولادی دستے والا کوڑا ہمہ وقت ایلائس کے پاس ہوتا تھا جس سے وہ اپنے شکار کی کمر ادھیڑ دیتی تھی۔ ایلائس نے گروہ کی سخت جان عورتوں کو مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں لڑائی بھڑائی کی مزید تربیت دی۔ اب اکثروبیشتر ان کی جھڑپیں مرد جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ ہونے لگی تھیں۔ انھوں نے ان لڑائیوں میں مردوں کو شکست دے کر بڑی کام یابی سے ایلیفینٹ، کیسل اور واٹرلُو روڈ کے درمیانی علاقے پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا۔
مارگریٹ ہیوز، ایلائس کی نائب تھی مگر گروہ میں اسے بھی اپنی ملکہ جیسی اہمیت حاصل تھی۔ بھولی بھالی معصوم شکل و صورت کے باعث وہ ’’ بے بی فیسڈ میگی‘‘ کہلاتی تھی۔ میگی، گروہ کی کارروائیاں تشکیل دیتی تھی۔ چوری، چھینا جھپٹی، اور اقدام قتل کے الزامات کے تحت میگی کو بیس سے زائد بار عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس موقع پر چہرے پر پھیلی بلا کی معصومیت اس کے بہت کام آتی۔ جج اسے باعزت بری کردیتا یا پھر برائے نام سزا ہوتی۔ مارگریٹ، بلیک میلنگ سمیت گروہ کی تشدد سے پاک یا ایسی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتی تھی جن میں مارکٹائی کا امکان کم ہوتا تھا۔
چالیس چورنیوں کے گروہ میں شامل ہونے سے پہلے میگی بھی مردوں کے گینگ کا حصہ تھی۔ میگی نے نوجوانی میں جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ اسے زیرزمین دنیا سے الفریڈ ہیوز نے متعارف کروایا تھا۔ الفریڈ لندن کا بدنام زمانہ مجرم تھا جو بعد میں میگی کا شوہر بنا۔ الفریڈ کی حاکمانہ ذہنیت کی وجہ سے جلد ہی ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ یہ اختلافات اتنے بڑھے کہ ایک روز میگی نے الفریڈ کو استرا مار کر زخمی کردیا جو وہ ہر وقت اپنی پنڈلی سے باندھ کر رکھتی تھی۔
بعد میں میگی اپنی اس حرکت پر نادم ہوئی اور تلافی کے طور پر اس نے الفریڈ کو رقم بھی دی۔ مگر اب وہ الفریڈ سے ہر تعلق توڑ دینا چاہتی تھی۔ چناں چہ وہ الفریڈ سے علیٰحدہ ہوگئی۔ پھر اس نے فورٹی ایلیفینٹس میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنی ذہانت، تیزی و طراری کی بہ دولت بہت جلد نائب کے عہدے تک پہنچ گئی۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ایلائس ڈائمنڈ اور میگی کو دنیا کی سب سے ماہر چور قرار دیا تھا۔
فوٹی ایلیفینٹس کے اراکین میں کوئی مرد شامل نہیں تھا ، لیکن کہا جاتا ہے کہ ایلائس نے بہ طور محافظ، چھے بدمعاشوں کی خدمات حاصل کررکھی تھیں۔ یہ بدمعاش گروہ کا باقاعدہ حصہ نہیں تھے، البتہ ان سے وہ کام لیے جاتے تھے جو عورتیں انجام نہیں دے سکتی تھیں۔ کئی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی تھیں کہ دراصل یہ مرد، گروہ کی اراکین ہوتی تھیں جو خاص مقاصد کے لیے مردانہ کپڑے پہن لیتی تھیں۔
ایلائس ڈائمنڈ اور میگی نے گروہ کی اراکین کو پابند کر رکھا تھا کہ وہ کسی سے معاشقہ نہیں لڑائیں گی۔ انھوں نے اپنی ماتحتوں کو خبردار کر رکھا تھا کہ مردوں سے رومانس کرنے کا انجام گروہ کی بربادی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ پر دل پہ کس کا زور چلتا ہے۔ دی فورٹی ایلیفینٹس کی ایک رکن، میری برٹن ایک وجیہہ مرد کو دل دے بیٹھی۔ اور یہیں سے ڈیڑھ صدی تک پولیس کی ناک میں دم کیے رکھنے والے منفرد گروہ کی تباہی کا آغاز ہوگیا۔ بعدازاں پتا چلا کہ میری برٹن کا محبوب درحقیقت پولیس کا سراغ رساں تھا اور اس نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت میری کو پیار کے جال میں پھانسا تھا۔
میری برٹن کا تعلق لندن کے ایک اچھے گھرانے سے تھا۔ اس بارے میں معلومات دست یاب نہیں کہ وہ دی فورٹی ایلیفینٹس کی رکن کیسے بنی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جیکسن کی محبت میں گرفتار ہوگئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس میں جیکسن کی منصوبہ بندی کا دخل تھا۔ میری اس بات سے بہ خوبی واقف تھی کہ گروہ کی اراکین کے لیے محبت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں مگر دوسری جانب جیکسن کا پیار اس کے دل میں گھر کرچکا تھا۔
اس نے جرائم کی دنیا سے کنارہ کش ہوکر اپنے پریمی کے ساتھ شریفانہ زندگی بسر کرنے کا عہد کرلیا تھا۔ جیکسن نے میری کے اہل خانہ سے بھی اس کے تعلقات بحال کروادیے تھے۔ اب وہ دی فورٹی ایلیفینٹس سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لینا چاہتی تھی، مگر وہ خوف زدہ بھی تھی۔ چناں چہ اس نے اپنے والد، بل برٹن سے درخواست کی کہ وہ اس کے ساتھ چل کر ’کوئن ایلائس‘ سے اس سلسلے میں بات چیت کریں۔ یہ 1925ء کی بات ہے۔
باپ بیٹی فورٹی ایلیفینٹس کی سرغنہ سے بات کرنے کے لیے اس کے ٹھکانے پر پہنچے۔ اس وقت میگی بھی وہاں موجود تھی۔ میری نے کوئن ایلائس سے والد کی ہمراہی میں آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ مشتعل ہوگئی اور اس نے میری پر حملہ کردیا۔ دوسری جانب میگی استرا نکال کر میری کے والد کی طرف لپکی۔ میری اور اس کا باپ بڑی مشکل سے جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کام یاب ہوئے۔ ایلائس نے گروہ کی اراکین کو اکٹھا کرکے میری سے اس کی بغاوت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔
میری اور جیکسن اسی روز شادی کے بندھن میں بندھ گئے تھے۔ ایلائس ڈائمنڈ اور اس کی ساتھیوں نے دو دن کے بعد پوری تیاری کے ساتھ میری برٹن کے آبائی گھر پر ہلّا بول دیا، جہاں وہ شادی کے بعد رہائش پذیر تھی۔ فورٹی ایلیفینٹس کی رکن عورتوں نے پتھر اور بوتلیں پھینک پھینک کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے۔ پھر کھڑکیوں کے راستے گھر میں داخل ہوگئیں۔
ایلائس چند ساتھیوں سمیت مسٹر برٹن کے کمرے میں پہنچی مگر وہاں صرف اس کی بیوی اور شیرخوار بیٹا موجود تھا۔ وہ خود اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے اس کے کمرے کی طرف بھاگ گیا تھا۔ غصے میں بپھری ایلائس ڈائمنڈ اور اس کی ساتھیوں نے برٹن کی بیوی کو مسہری کے نیچے سے کھینچ کر باہر نکالا اور اسے ساتھ لے کر برٹن اور میری کو ڈھونڈنے لگیں۔ بالآخر باپ بیٹی ان کے ہاتھ لگے گئے۔ انھوں نے گروہ کی باغی رکن اور اس کے باپ کو مار مار کر لہولہان کردیا۔
ابھی یہ کارروائی جاری تھی کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی بھاری نفری نے پہنچ کر مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ کچھ ہی دیر میں سپاہی اندر داخل ہوگئے۔ دو بدو مقابلے کے بعد دی فورٹی ایلیفینٹس کی بیشتر اراکین گرفتار ہوگئیں۔ زخمی مسٹر برٹن، اس کی اہلیہ اور میری کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا۔
بعدازاں پولیس نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے فورٹی ایلیفینٹس کی کئی مفرور اراکین کو بھی گرفتار کرلیا۔ جرائم پیشہ خواتین کے اس گروہ کے خلاف چلنے والا مقدمہ لندن کی تاریخ کا سنسنی خیز مقدمہ ثابت ہوا۔ عدالتی کارروائی کے دوران یوں معلوم ہورہا تھا کہ گروہ کے ہاتھوں بلیک میل ہونے والے شرفاء بھی اس کی مخالفت میں سامنے آجائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اور عدالت نے مسٹر برٹن کے گھر پر حملے کو بنیاد بناتے ہوئے سزائیں سنائیں۔
ایلائس ڈائمنڈ اور میگی دونوں کو مرکزی مجرم قرار دیتے ہوئے طویل قید بامشقت سنائی گئی۔ سزا سننے کے بعد ایلائس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، البتہ میگی نے فیصلہ سُن کر کہا تھا،’’جیل سے میں صحیح معنوں میں ولین بن کر نکلوں گی۔‘‘ ایلائس ڈائمنڈ ا ور اس کی ساتھیوں کے مقدمے کا فیصلہ 1929ء میں سنایا گیا تھا۔ اس کے کوئی پچیس برس کے بعد 1950ء کی دہائی میں اس کی موت ہوگئی تھی۔
1925ء میں گروہ کی بیشتر اراکین کی گرفتاری کے بعد عملاً دی فورٹی ایلیفینٹس کا خاتمہ ہوگیا تھا، مگر بچی کھچی خواتین ارکان نے 1950ء کی دہائی تک گروہ کا نام استعمال کرتے ہوئے محدود پیمانے پر مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ پھر رفتہ رفتہ ان کی گرفتاریوں اور اموات کے بعد دی فورٹی ایلیفنٹس کا نام و نشان تاریخ کے اوراق میں گُم ہوگیا۔

No comments:

Post a Comment